بھارت میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے بعد راجیا سبھا (ایوان بالا) سے بھی ایک ساتھ تین طلاقوں کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایوان بالا میں بل کے حق میں 84 ووٹ ڈالے گئے۔
وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایوان بالا سے باہر نکلتے ہوئے فتح کا نشان بنایا۔
یونین وزرا نے ایوان بالا سے بل منظور ہونے پر اسے ’تاریخ دن‘ قرار دیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مسلم ویمن (پروٹیکشن رائٹس آن میریج) بل 2017 منظور ہونے پر مسرت کا اظہار کیا۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ دقیانوسی اور قرون وسطیٰ دور کی روایت آخر کار تاریخ کے کچرا دان تک محدود کردی گئی۔
نریندر مودی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ایک ساتھ تین طلاقیں مسترد کردی۔
بھارتی وزیراعظم نے بل کی منظوری کو صنفی انصاف کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے معاشرے میں مزید یکسانیت کو فروغ ملے گا۔
واضح رہے کہ مذکورہ بل آرڈیننس کے ذریعے نافذ العمل ہے تاہم نریندر مودی کی حکومت نے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کا معاملہ اٹھایا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل تیسری مرتبہ بھی منظور کر لیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور ترینامول کانگریس نے بل پر رائے شماری کے بعد واک آؤٹ کیا تھا جس کے حق میں 302 اور مخالفت میں 78 ووٹ دیئے گئے۔
تین طلاقوں پر سزا کا بل کیا ہے؟
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق شادی سے متعلق مسلمان خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل 2019 میں لوک سبھا میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے گزشتہ سال 21 جون کو پیش کیا تھا۔
مذکورہ بل کے تحت ایک ہی وقت میں 3 مرتبہ طلاق دینا قابل سزا جرم ہے۔
بل کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شخص کو 3 سال قید کی سزا ہوگی اور خاتون یا اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے شکایت درج کروانے پر جرم کو قابل سماعت قرار دیا جائے گا۔
ملزم کو مجسٹریٹ کی جانب سے ضمانت دی جاسکتی ہے، جو صرف متاثرہ خاتون کا بیان سننے کے بعد اگر مجسٹریٹ مطمئن ہو تو مناسب وجوہات کی بنیاد پر ضمانت دے سکتا ہے۔
بل کے تحت متاثرہ خاتون کی درخواست پر مجسٹریٹ کی جانب سے جرم کا دائرہ کار مرتب کیا جاسکتا ہے۔
متاثرہ خاتون کو شوہر کی جانب سے خود سمیت اپنے بچوں کے لیے مالی وظیفہ دیا جائے گا۔
جس خاتون کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی گئیں وہ اپنے چھوٹے بچوں کی کسٹڈی حاصل کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں لوک سبھا میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا تھا, تاہم انتخابات کے باعث قانون سازی کا عمل رک گیا تھا۔
2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
بعد ازاں عدالتی فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے پارلیمان میں بل پیش کرنے کی تیاریاں شروع کی گئی تھیں۔
بعد ازاں 2017 ہی میں اس سلسلے میں ایک بل لوک سبھا سے منظور کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد اس بل کو ترمیم کے بعد دوبارہ ایوان زیریں میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تاہم یہ بل حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہونے کے باوجود منظور ہوگیا۔
تاہم جب ایوانِ بالا (راجیا سبھا) میں بیک وقت 3 طلاقوں کو ناقابلِ ضمانت جرم بنانے کا بل پیش کیا گیا تو کانگریس اور کچھ دیگر جماعتوں کی مزاحمت کے باعث یہ منظور نہیں ہوسکا تھا، جس کے بعد حکومت نے اس پر خصوصی حکم نامہ جاری کردیا تھا۔
خیال رہے کہ مسلم قوانین کے مطابق خاوند اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 مرتبہ طلاق کے الفاظ کہتا ہے تاہم اس حوالے سے مسلم اسکالرز میں متضاد رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ مرد کی جانب سے ایک ہی ساتھ طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہنے سے یہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔
تاہم دیگر کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کی روح سے 3 طلاقوں کے درمیان مخصوص عرصہ درکار ہے۔
بھارت میں رہنے والی اقلیتوں میں 15 کروڑ 50 لاکھ مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے ذاتی قوانین کے مطابق ان معاملات میں فیصلوں کے لیے آزاد ہیں، جس کا مقصد ہندو اکثریت والے ملک بھارت میں ان کی مذہبی آزادی تسلیم کرنا ہے۔